نیویارک پولیس نے مقامی وقت کے مطابق منگل کو بتایا ہے کہ نیویارک یونیورسٹی کے جن 133 طلبہ کو حراست میں لیا گیا تھا انہيں عدالتی سمن کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب امریکہ کی ییل، کولمبیا اور دیگر کئ یونیورسٹیوں میں طلبہ کے مظاہروں میں شدت آ رہی ہے۔
نیویارک یونیورسٹی کے ترجمان نے طلبہ کے خلاف پولیس بلانے کے اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کچھ مظاہرین باہر سے یونیورسٹی میں گھس آئے تھے اس لئے انتظامیہ کو پولیس بلانی پڑی۔
ترجمان کے مطابق بد نظمی، مخاصمانہ رویہ اور یہودیوں کے خلاف نعرے بازی کی وجہ سے حالات اچانک بدل گئے۔
نیویارک یونیورسٹی کے ترجمان نے یہ بھی دعوی کیا کہ یہ یونیورسٹی طلبہ کی اظہار رائے کی آزادی اور سیکوریٹی کی پابند ہے۔
واضح رہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں بھی جمعرات کو مظاہرے کے دوران انتظامیہ نے پولیس طلب کر لی جس کے بعد 100 طلبہ کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
واضح رہے 7 اکتوبر سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت میں اب تک 34ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہيں جن میں سے بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے ۔
45 دنوں تک جنگ جاری رہنے کے بعد 24 نومبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئي جس کے دوران قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔
7 دنوں تک جاری رہنے کے بعد عبوری جنگ بندی ہو گئي اور پہلی دسمبر سے صیہونی حکومت نے غزہ پر پھر سے حملے شروع کر دیئے۔
6 مہینے جنگ جاری رہنے کے بعد سلامتی کونسل نے 25 مارچ 2024 کو غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو منظوری دی۔ اس قرارداد کے حق میں 14 اراکین نے ووٹ ڈالا جبکہ امریکہ نے نہ ووٹنگ میں حصہ لیا نہ ہی قرارداد کو پہلے کی طرح ویٹو کیا۔
امریکہ اس سے قبل غزہ میں جنگ بندی کی 3 قراردادوں کو ویٹو کر چکا تھا۔
قرارداد 2728 سلامتی کونسل میں منظور تو ہوئي لیکن امریکہ کی حمایت کی وجہ سے دیگر بہت سی قراردادوں کی طرح اسرائيل نے اس قرارداد پر بھی عمل نہيں کیا۔
آپ کا تبصرہ